اتوار 22 دسمبر 2024 - 17:47
حضرت زہراء (س) کی ایک اہم صفت بتول ہے، جس کے معنی، دنیا سے لاتعلقی اور خدا سے مضبوط رابطہ ہیں

حوزہ/حجت الاسلام سید محمود مدنی نے حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کے یومِ ولادت کی مناسبت مسجد مبارکۂ حجتیہ میں منعقدہ محفلِ میلاد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت زہراء (س)کی ایک اہم صفت بتول ہے، جس کے معنی، دنیا سے لاتعلقی اور خدا سے ارتباط ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام سید محمود مدنی نے حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کے یومِ ولادت کی مناسبت مسجد مبارکۂ حجتیہ میں منعقدہ محفلِ میلاد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت زہراء (س)کی ایک اہم صفت بتول ہے، جس کے معنی، دنیا سے لاتعلقی اور خدا سے ارتباط ہیں۔

حضرت زہراء (س) کی ایک اہم صفت بتول ہے، جس کے معنی، دنیا سے لاتعلقی اور خدا سے مضبوط رابطہ ہیں

انہوں نے مزید کہا کہ آج کے حالات میں ایک مایوسی کی فضاء ہے؛ عظیم شخصیات شہید ہوئی ہیں، اسی حوالے سے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی ایک صفت کے بارے میں گفتگو کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ حضرت زہراء کا ایک لقب بتول ہے، یہ لقب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ سے نقل ہوا ہے۔ اسی طرح سے حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے: آپ نے منبر پر اپنی فضیلت اور افتخارات بیان کرتے ہوئے فرمایا: أنا زوج البتول۔۔۔میں بتول کا شوہر ہوں۔ اسی طرح امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ جس میں یہ لقب ذکر ہوا ہے۔

انہوں نے بتول کے معنی بیان کرتے ہوئے کہا کہ بتول کے کم از کم پانچ معنی نقل کیے ہیں، جن میں سے ایک معنی المنقطعہ عن الدنیا ہے، یعنی آپ دنیا سے مکمل طور پر لاتعلق تھیں، یعنی دنیا کے زرق وبرق، مال و دولت کا آپ پر کوئی اثر نہیں تھا۔

حجت الاسلام محمود مدنی نے کہا کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی خواستگاری کے لیے بہت سے افراد آئے، جو مالدار تھے، جن میں سے ایک عبد الرحمن ابن عوف تھے۔ اس نے پیغمبرِ اسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے کہا کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے شادی کے بدلے سو اونٹ دوں گا، یہ بہت بڑا سرمایہ تھا، مگر حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے ان سب کو ٹھکرا کر حضرت علیہ السّلام سے شادی کی۔ آپ نے ایسے گھر کا انتخاب کیا، جس کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ حضرت علی علیہ السّلام نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے فرمایا کہ آج کچھ مہمان ساتھ ہیں تو حضرت زہراء نے فرمایا کہ تین دن سے گھر میں کچھ بھی نہیں، اس حد تک ایثار، معصومین علیہم السّلام سے مخصوص ہے۔

انہوں نے حضرت زہراء کی سخاوت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ حضرت پیغمبر سفر سے واپس ہوئے تو جناب زہراء کے گھر تشریف لے گئے اور جلد گھر سے باہر آئے۔ حضرت زہراء نے دیکھا کہ ایک پردہ گھر میں لگا ہوا تھا جو جنگ سے حضرت علی لے آئے تھے، آپ نے وہ پردہ حسن وحسین کے ساتھ پیغمبر کی خدمت میں بھیج دیا تاکہ وہ فقرا کو دے دیا جائے، یہ دیکھ کر پیغمبر نے فرمایا: فداھا ابوھا.

حجت الاسلام والمسلمین سید محمود مدنی نے مزید کہا کہ بتول کا اس سے بھی ایک اہم معنی ہے، وہ المنقطعۃ الی اللہ یہ وہی معنی ہے جو مناجات شعبانیہ میں بھی ہے: الٰہی ھب لی کمال الانقطاع الیک. دنیا واسباب کی دنیا ہے، جو اسباب کے ذریعے چلتی ہے، کام، محنت اور کوشش ضروری ہے، لیکن انسان کی نگاہ مسبب الاسباب پر ہو، یعنی باقی کچھ بھی نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب انسان تمام اسباب سے لاتعلقی کرلے تو پھر کسی سے نہیں ڈرتا، کیوں ہم امریکہ واسرائیل سے ڈریں؟ طاقتوں اور افراد سے خوف کھائیں؟ کیونکہ اصل طاقت اللہ کے پاس ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہیں، باقی معاملات اللہ کے سپرد کرتے ہیں، اس سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔ تمام مشکلات میں امید کی چابی بابرکت نام بتول ہے، جس میں تمام اسباب سے کٹ کر صرف خدا کی طرف نظر کا مفہوم پوشیدہ ہے۔

حجت الاسلام مدنی نے مزید کہا کہ اسباب سے چشم پوشی کا یہ معنی نہیں کہ ہم منصوبہ بندی نہ کریں، کام نہ کریں اور پالیسی نہ بنائیں، بلکہ ان تمام کاموں اور اقدامات میں انقطاع تک پہنچ جائیں اور مسسب الاسباب تک رسائی حاصل کریں یہ ہے بتول کا معنی۔

انہوں نے مزید کہا کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے بعد ایسے حالات میں قیام کیا، جب جنگ بدر، احد اور حنین کے مجاہدین گھروں میں بیٹھ گئے، مگر حضرت زہراء میدان میں آئیں، آپ خوفزدہ نہیں ہوئیں اور تمام تر دشمنی کے باوجود قیام کیا، کیونکہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے دنیا سے منہ موڑ کر صرف خدا کی جانب رخ کیا تھا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha